حسن بن علی بن ابی طالب (3-50ھ) امام حسن مجتبیؑ کے نام سے مشہور شیعوں کے دوسرے امام ہیں۔ آپ کی امامت کی مدت دس سال (40-50ھ) پر محیط ہے۔ آپ تقریبا 7 مہینے تک خلافت کے عہدے پر فائز رہے۔ اہل سنت آپ کو خلفائے راشدین میں آخری خلیفہ مانتے ہیں۔
آپ حضرت علیؑ و حضرت زہراؑ کے پہلے فرزند اور پیغمبر اکرمؐ کے بڑے نواسے ہیں۔ تاریخی شواہد کی بنا پر پیغمبر اکرمؐ نے آپ کا اسم گرامی حسن رکھا اور حضورؐ آپ سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔ آپ نے اپنی عمر کے 7 سال اپنے نانا رسول خداؐ کے ساتھ گزارے، بیعت رضوان اور نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ میں اپنے نانا کے ساتھ شریک ہوئے۔
شیعہ اور اہل سنت منابع میں امام حسنؑ کے فضائل و مناقب کے سلسلے میں بہت سی احادیث نقل ہوئی ہیں۔ آپؑ اصحاب کسا میں سے تھے جن کے متعلق آیہ تطہیر نازل ہوئی ہے جس کی بنا پر شیعہ ان ہستیوں کو معصوم سمجھتے ہیں۔ آیہ اطعام، آیہ مودت اور آیہ مباہلہ بھی انہی ہستیوں کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ آپ نے دو دفعہ اپنی ساری دولت اور تین دقعہ اپنی دولت کا نصف حصہ خدا کی راہ میں عطا کیا۔ آپ کی اسی بخشندگی کی وجہ سے آپ کو “کریم اہل بیت” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ نے 20 یا 25 بار پیدل حج کیا۔
خلیفہ اول اور دوم کے زمانے میں آپ کی زندگی کے بارے میں کوئی خاص بات تاریخ میں ثبت نہیں ہوئی ہے۔ خلیفہ دوم کی طرف سے خلیفہ منتخب کرنے کیلئے بنائی گئی چھ رکنی کمیٹی میں آپ بطور گواہ حاضر تھے۔ خلیفہ سوم کے دور میں ہونے والی بعض جنگوں میں آپ کی شرکت کے حوالے سے تاریخ میں بعض شواہد ملتے ہیں۔ حضرت عثمان کے خلاف لوگوں کی بغاوت کے دوران امام علیؑ کے حکم سے آپ ان کے گھر کی حفاظت پر مأمور ہوئے۔ امام علیؑ کی خلافت کے دروان آپ اپنے والد کے ساتھ کوفہ تشریف لائے اور جنگ جمل و جنگ صفین میں اسلامی فوج کے سپہ سالاروں میں سے تھے۔
21 رمضان 40ھ میں امام علیؑ کی شہادت کے بعد آپ امامت و خلافت کے منصب پر فائز ہوئے اور اسی دن 40 ہزار سے زیادہ لوگوں نے آپ کی بیعت کی۔ معاویہ نے آپ کی خلافت کو قبول نہیں کیا اور شام سے لشکر لے کر عراق کی طرف روانہ ہوا۔ امام حسنؑ نے عبید اللہ بن عباس کی سربراہی میں ایک لشکر معاویہ کی طرف بھیجا اور آپؑ خود ایک گروہ کے ساتھ ساباط کی طرف روانہ ہوئے۔ معاویہ نے امام حسن کے سپاہیوں کے درمیان مختلف شایعات پھیلا کر صلح کیلئے زمینہ ہموار کرنے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ ایک خارجی کے حملہ کے نتیجے میں آپؑ زخمی ہوئے اور علاج کیلئے آپ کو مدائن لے جایا گیا۔ اسی دوران کوفہ کے بعض سرکردگان نے معاویہ کو خط لکھا جس میں امامؑ کو گرفتار کرکے معاویہ کے حوالے کرنے یا آپ کو شہید کرنے کا وعدہ دیا گیا تھا۔ معاویہ نے کوفہ والوں کے خطوط امامؑ کو بھیج دیئے اور آپ سے صلح کرنے کی پیشکش کی۔ امام حسنؑ نے وقت کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے معاویہ کے ساتھ صلح کرنے اور خلافت کو معاویہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اس شرط کے ساتھ کہ معاویہ قرآن و سنت پر عمل پیرا ہوگا، اپنے بعد کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں کرے کا اور تمام لوگوں خاص کر شیعیان علیؑ کو امن کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرے گا۔ لیکن بعد میں معاویہ نے مذکورہ شرائط میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں کیا۔ معاویہ کے ساتھ ہونے والی صلح کی وجہ سے بعض شیعہ آپ سے ناراض ہوگئے یہاں تک کہ بعض نے آپ کو “مذلّ المؤمنین” (مؤمنین کو ذلیل کرنے والے) خطاب کیا۔
صلح کے بعد آپ سنہ 41ھ میں مدینہ واپس آ گئے اور زندگی کے آخری ایام تک یہیں پر مقیم رہے۔ مدینہ میں آپؑ علمی مرجعیت کے ساتھ ساتھ سماجی و اجتماعی طور پر بلند مقام و منزلت کے حامل تھے۔
معاویہ نے جب اپنے بیٹے یزید کی بعنوان ولی عہد بیعت لینے کا ارادہ کیا تو امام حسنؑ کی زوجہ جعدہ کیلئے سو دینار بھیجے تاکہ وہ امام کو زہر دے کر شہید کرے۔ کہتے ہیں کہ آپؑ زہر سے مسموم ہونے کے 40 دن بعد شہید ہوئے۔ ایک قول کی بنا پر آپؑ نے اپنے نانا رسول خداؑ کے جوار میں دفن ہونے کی وصیت کی تھی لیکن مروان بن حکم اور بنی امیہ کے بعض دوسرے لوگوں نے اس کام سے منع کیا یوں آپ کو بقیع میں سپرد خاک کیا گیا۔
آپؑ کی احادیث اور مکتوبات کا مجموعہ نیز آپ کے 138 راویوں کے اسماء مسند الامام المجتبیؑ نامی کتاب میں جمع کئے گئے ہیں۔